قبائلی علاقوں سے جڑے ہونے کے باعث دہشتگردوں کے نشانے پر ہونے کے باوجود صوبائی دارالحکومت پشاور کے سب سے بڑے تدریسی ہسپتال لیڈی ریڈنگ سمیت شہر کے دیگر ہسپتالوں میں سیکیورٹی ناپید ہے ہسپتال میں سیکورٹی کے لئے صرف 20پولیس اہلکار تعینات انتظامیہ کا صرف دعوﺅں اور یقین دہانیوں پر اکتفا
سکولوں کو تو سیکیورٹی فراہم کردی گئی تاہم ہسپتالوں کی سیکیورٹی تاحال سوالیہ نشان ہے، عوامی آمد و رفت کی سب سے بڑی جگہیں اب تک عدم تحفظ کا شکار ہیں صوبائی حکومت نے 12جنوری کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں ہسپتالوںکی سیکورٹی انتظامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن تاحال صوبے کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں سیکورٹی سوالیہ نشان بن چکا ہے ہسپتال میں سیکورٹی کے لئے 20پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں جبکہ ہسپتال کے 6مرکزی گیٹوں پر نہ ہی واک تھرو گیٹ ہے اور نہ ی چیکنگ کا کوئی مناسب بندو بست عوامی آمد و رفت کی سب سے بڑی جگہیں اب تک عدم تحفظ کا شکار ہیں پشاور کا لیڈی ریڈنگ ہسپتال ہی نہیں دیگر چھوٹے بڑے سرکاری و پرائیوٹ ہسپتال سیکیورٹی سے محروم ہےںپشاور کے ہسپتال انتہائی حساس ہیں اس کے باوجود نجی کلینکس سے بڑے سرکاری ہسپتالوں تک کہیں بھی سی سی ٹی وی کیمرے،واک تھرو گیٹس یا سیکیورٹی گارڈز کا نام ونشان نظر نہیں آتا،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہسپتالوں میں سیکیورٹی انتظامات کا فقدان حکومت کیلئے سوالیہ نشان ہے خیبر پختونخوا کے ہسپتالوں میں بھی ڈاکٹرز عدم تحفظ کا شکار ہیں ڈاکٹروں کی ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان معمول بن چکی ہے ڈاکٹرز نے احتجاج بھی کیا ہے مگر اب تک حکومت نے ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے
سکولوں کو تو سیکیورٹی فراہم کردی گئی تاہم ہسپتالوں کی سیکیورٹی تاحال سوالیہ نشان ہے، عوامی آمد و رفت کی سب سے بڑی جگہیں اب تک عدم تحفظ کا شکار ہیں صوبائی حکومت نے 12جنوری کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں ہسپتالوںکی سیکورٹی انتظامات کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن تاحال صوبے کے سب سے بڑے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں سیکورٹی سوالیہ نشان بن چکا ہے ہسپتال میں سیکورٹی کے لئے 20پولیس اہلکار تعینات کئے گئے ہیں جبکہ ہسپتال کے 6مرکزی گیٹوں پر نہ ہی واک تھرو گیٹ ہے اور نہ ی چیکنگ کا کوئی مناسب بندو بست عوامی آمد و رفت کی سب سے بڑی جگہیں اب تک عدم تحفظ کا شکار ہیں پشاور کا لیڈی ریڈنگ ہسپتال ہی نہیں دیگر چھوٹے بڑے سرکاری و پرائیوٹ ہسپتال سیکیورٹی سے محروم ہےںپشاور کے ہسپتال انتہائی حساس ہیں اس کے باوجود نجی کلینکس سے بڑے سرکاری ہسپتالوں تک کہیں بھی سی سی ٹی وی کیمرے،واک تھرو گیٹس یا سیکیورٹی گارڈز کا نام ونشان نظر نہیں آتا،دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہسپتالوں میں سیکیورٹی انتظامات کا فقدان حکومت کیلئے سوالیہ نشان ہے خیبر پختونخوا کے ہسپتالوں میں بھی ڈاکٹرز عدم تحفظ کا شکار ہیں ڈاکٹروں کی ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان معمول بن چکی ہے ڈاکٹرز نے احتجاج بھی کیا ہے مگر اب تک حکومت نے ڈاکٹروں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے